Interview with Abdul Jabbar Chandio by Yasir gill

Personality does not suit for interview. 
photo is dull,  will further deteriorate in printing.

انٹر ویو: یاسر گل 

MC#64/2K15/BS-Part-III

عبدالجبار چانڈیو

عبدالجبار چانڈیو 8مارچ1983کو نوکوٹ ضلع میرپور خاص کے متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے آپ نے ابتدائی تعلیم نوکوٹ سے ہی حاصل کی آپ نے انٹر میڈیٹ کا امتحان 2004میں پاس کیا۔ اپنی تعلیمی قابلیت اور محنت سے 15اگست2008کو پی ایس ٹی کا امتحان پاس کرکے پرائمری ٹیچر منتخب ہوئے ۔ آپ نے ٹیچنگ کے ساتھ ساتھ اپنی تعلیم بھی جاری رکھی اور 2012میں جامع سندھ سے بیچلر آف ایجوکیشن کی ڈگری حاصل کی اور جامع سندھ ہی سے 2016میں ماسٹر آف ایجوکیشن کی ڈگری حاصل کی، آپ نے اپنی تعلیمی قابلیت اور محنت سے نوکوٹ کے دیہی پرائمری اسکول میں 33سال کی عمر میں ہیڈ ماسٹر کے طورپر منتخب ہوئے ۔ 

آپ ٹیچنگ کی فرائضگی کے ساتھ ساتھ سوشل ورکر بھی ہیں آپ دیہی علاقوں کے لوگوں میں تعلیم کے شعور کو اُجاگر کرنے کیلئے کام کرتے ہیں ان سے سندھ کے دیہات کے پرائمری اسکولوں کے حوالے سے کیاگیا انٹرویوملاحظہ کیجئے ۔

سوال: سندھ میں دیہات کے پرائمری اسکولوں میں طالب علموں کی تعداداتنی کم کیوں ہے ؟
جواب:تعلیم ہر انسان کا بنیادی طورپر حق ہے اور کوئی اسے تعلیم حاصل کرنے سے نہیں روک سکتا، سندھ کے دیہاتی علاقوں میں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے تو تعلیم تو بہت دور کی بات ہے دیہات کے پرائمری اسکولوں میں نئے داخلے نہ ہونے کی بڑی وجہ والدین میں شعور کی کمی ہے جس کی وجہ سے سندھ کے دیہاتی علاقوں کے اسکوولوں میں طالب علموں کی تعداد کم ہے ۔ مہنگائی اور روزمرہ کے خرچوں کی وجہ سے غریب والدین اپنے بچوں کو اسکولوں سے ہٹا کر کام پر لگادیتے ہیں اور اسکول ویران ہوتے ہیں ۔

سوال :آپ کو دیہات کے سرکاری پرائمری اسکول میں ٹیچر کی حیثیت سے کن کن مشکلات کا سامنہ کرنا پڑتا ہے ؟
جواب: مشکلات تو ہر جگہ ہوتی ہیں لیکن سامنہ کرنے سے ہی تو مشکل حل ہوتی ہے سب سے پہلے تقریباً جو بھی والدین سرکاری اسکولوں میں داخلہ کرواتے ہیں وہ غریب ہوتے ہیں وہ کاپیاں ، سلیٹ اور کتابیں نہیں خرید سکتے ۔ ہاں کتابیں گورنمنٹ دیتی ہے مگر وہ بھی صرف ایک دفعہ ملتی ہے اگر بچہ کتاب پھاڑ دے تو وہ دوبارہ نہیں خرید سکتا ۔ دوسری وجہ طالب علموں کا یونیفارم نہیں ہوتا بچے پرائیویٹ اسکولوں کے بچوں کو دیکھ کر اپنے آپ کو کم تر محسوس کرتے ہیں اور سرکاری اسکولوں میں بنیادی سولیات ہی نہیں ، جس کی وجہ سے کافی مشکلات کا سامنہ کرنا پڑتا ہے ۔

سوال :سرکاری اسکولوں کی کارکردگی پرائیویٹ اسکولوں کے مقابلے میں اتنی
 خراب کیوں ہے؟
جواب: سب سے بری وجہ یہ ہے کہ پرائیویٹ اسکولوں میں پرھنے والے طالب علموں کو زیادہ سہولیات ہیں ۔ وہ صبح اسکول جاتے ہیں اور شام کو ٹیوشن پڑھتے ہیں اور پرائیویٹ اسکولوں کے طالب علموں کو مختلف تاریخی مقامات کے اسٹڈی دورے کرائے جاتے ہیں اور ان کی کونسلنگ کی جاتی ہے جس سے ان میں شعور پیدا ہوتا ہے ، کہ ہمیں اس دنیا کہ لیے کیاکرنا ہے ۔ جبکہ سرکاری اسکولوں میں سہولیات کا فقدان ہے ۔ خاص طورپر دیہات کے اسکولوں کی حالت بہت بری ہے ۔ سرکاری اسکولوں کے بچوں کے والدین میں شعور نہیں اور ناہی ان کی حکومتی سطح پر کوئی کونسلنگ کی جاتی ہے اور کوئی اسٹڈی دورہ بھی نہیں ہوتا جس سے بچوں کو سیکھنے کا موقع ملے ، اورپھر بچوں کا نقصان ہوتا ہے ۔

سوال :دیہی علاقوں میں لوگوں میں شعور اور تعلیم کو فروغ دینے کے لیے کونسے اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے ؟
جواب:میرے خیال میں اس سوال کا جواب میں سوشل ورکر کے تجربے کی حیثیت سے بیان کروں تو مفید ہوگا۔ میں اور میرے دوست اساتذہ نے دیہات کے لوگوں میں تعلیم کا شعور پیدا کرنے کیلئے گاؤں کے لوگوں اور کمیونٹی کے سربراہوں سے ملاقاتیں کی اور انہیں تعلیم کی افادیت کے حوالے سے آگاہ کیا تاکہ بڑے پیمانے پر لوگوں میں آگاہی پیدا ہو ۔ اور وہ اپنے بچے سرکاری اسکولوں میں داخل کروائیں ۔لیکن یہ ہم نے ایک چھوٹا سا حصہ ڈالا ہے مگر یہ کام حکومت کی ذمہ ہے کہ وہ اپنا فرض ادا کرتے ہوئے آگاہی مہم کا آغاز کرے اور لوگوں کو تعلیم کی طرف راغب کرے ۔

سوال :کیا سرکاری اور پرائیویٹ اسکولوں کا نصاب ایک جیسا ہونا چاہیے ؟
جواب:نصاب ایک جیسا ہو نا چاہیے مگر کوئی دوسرا نصاب پڑھا رہا ہے تو اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے بلکے گورنمنٹ کو پرانے نصاب میں بہتری لانی چاہیے اور اسے تبدیل کرنا چاہیے اور جدت دینی چاہیے تاکہ بچے فائدہ اٹھائیں ۔ورنہ تو بیس سال پرانا نصاب صرف اور صرف تاریخ ہے جدت نہیں۔

سوال :دیہات کے سرکاری اسکولوں میں تعلیم کے معیار کو کیسے بہتر کیا جائے ؟
جواب:سب سے پہلے اساتذہ کو ماہانہ بنیادوں پر ٹریننگ دی جائیں اور نصاب کو بہتر کیا جائے طالب علموں کے سائنسی علوم کے تجرباتی مٹیریل فراہم کئے جائیں ۔تاکہ بچے حقیقی طورپر سائنس کا فن حاصل کرسکیں ۔ سرکاری اسکولوں میں اساتذہ کی تعداد پوری کی جائے تاکہ تدریسی عمل میں آسانی ہو اور سرکاری اسکولوں میں بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں اور اس کہ ساتھ ساتھ والدین کی ماہانہ وار کونسلنگ کی جائے تاکہ وہ مستقل رابطے میں رہیں اور بچے کی تعلیمی سمت کے حوالے سے واقف ہوں ۔ یہی باتیں ہیں جن سے تعلیم کا معیار بہتر کیا جاسکتا ہے ۔



Yasir Gill Interview

Comments

Popular posts from this blog

Aqeel Ahmed Soomro

مسرت ٹالپر: فیچر تاریخی مسجد بھوڈیسر- Musrat Talpur

TWO OLD GOVERNMENT SCHOOLS OF HYDERABAD CITY