Interview by Adil Ansari عادل انصاری
Edited
M.A Previousکلاس2K17/MC/62نام عادل انصاری رول نمبر 62:
انڑویو محمد وارث علی عباسی
تعارف
ابتدائی تعلیم حیدرآباد کے نور محمد ہائی اسکول میں حاصل کی سکینڈری تعلیم سچل کالج سے حاصل کی حیدرآباد کے تاریخ کے حوالے
سے خاص نظر ہے اور خاص حیدرآباد کی تاریخ میں مختلف تحریریں قلم بند کیں،
س: مصنف بننے کا شوق کب ہوا اور اس کا آغاز کب ہوا؟
ج: لکھنے کا شوق بچپن ہی سے تھا جب سے ہوش سنبھالا ہے جب سے لکھنے کا آغاز کردیا تھا اور ساری زندگی لکھ رہا ہوں
سرکاری نوکری میں رہ کر تقریباً 41سال اور دو ماہ میر منشی بن کر لکھتا رہا جسے میں نے میر منشی کی حیثت میں لکھا اور اب بھی
لکھا رہا ہوں
س: آپ کی پہلی تحریر کس عنوان سے تھی اور کون سی تحریر اب تک طویل تحریر بن کر شائع ہورہی ہے؟
ج: میری زیادہ تر تحریریں ہفتہ وار میگزین یا اخبار میں شائع ہوتی ہیں اور پہلی تحریر حیدرآباد شہر کے عنوان سے تھی اس کے علاوہ
2012 سے عبرت میگزین جو ہرپندرہ روز میں مسلسل شائع ہوتی ہیں میری تاریخ کے عنوان سے شائع ہوری ہے
س: آپ کی بے شمار تحریریں زیادہ تر تاریخ کے عنوان سے کیوں ہوتی ہے؟
ج: پہلی بات یہ ہے کہ جتنا بھی جدید دور آجائے یہ تاریخی مقامات اور مقبرے وغیرہ یہ ہمارے قومی آثاثے ہیں
یہ نئی نوجوان نسل اگر اپنی تاریخی مقامات پر نظر ڈالیں تو گھوم جائیں گے کیونکہ یہ اتنے دلچسپ اور منفرد مقامات ہیں اس
کی خوبیاں اپنی طرف راغب کرے گی اور اسے پڑھنے میں اور دلچسپی میں اور اضافہ ہوگا اور یہ مقامات اپنی ایک تاریخی
حیثت رکھتے ہیں،
س: آپ کی پہلی کتاب کونسی تھی اور اب تک کتنی تحریریں کتابوں کے شکل میں آچکی ہے؟
ج: میری پہلی کتاب حیدرآباد شہر تاریخ کے آئینے میں ،اس عنوان سے شائع ہوئی جو لوگوں میں بہت مقبول ہوئی اور اسکے
علاوہ دوسری کتاب جو تقریباً مکمل ہوچکی ہے جس کا عنوان سندہ اقتدار اور مفاد ، اس کی کچھاقساط کراچی سے ہونے والی
ماہموار رسالے Toward newsمیں شائع کی جا چکی ہیں اور ابھی جلد ہی دوسری کتاب قارئین کو پڑھنے کو ملے گی،
س: تاریخی مقامات میں سے وہ کون سے مقامات ہیں جن کا تذکرہ آپکی تحریروں میں زیادہ کیا گیا ہیں؟
ج: تاریخی مقامات میں سے چند ایسے مقامات ہے جوکہ میں نے اپنی تحریروں میں زیادہ لکھا ہے قسط وار کی شکل میں
کلہوڑہ حکمرانوں کا مقبرا ،پکا قعلہ ،کچہ قعلہ ،تالپور حکمرانوں کے مقبرے ،درویشوں کے آرام گاہیں ،قدیم مسجدیں
اور قدیم قبرستان اب یہ اپنی اصلی حالت میں نہیں رہی ہیں میری تحریروں میں نمایاں رہی ،
M.A Previousکلاس2K17/MC/62نام عادل انصاری رول نمبر 62:
انڑویو محمد وارث علی عباسی
تعارف
ابتدائی تعلیم حیدرآباد کے نور محمد ہائی اسکول میں حاصل کی سکینڈری تعلیم سچل کالج سے حاصل کی حیدرآباد کے تاریخ کے حوالے
سے خاص نظر ہے اور خاص حیدرآباد کی تاریخ میں مختلف تحریریں قلم بند کیں،
س: مصنف بننے کا شوق کب ہوا اور اس کا آغاز کب ہوا؟
ج: لکھنے کا شوق بچپن ہی سے تھا جب سے ہوش سنبھالا ہے جب سے لکھنے کا آغاز کردیا تھا اور ساری زندگی لکھ رہا ہوں
سرکاری نوکری میں رہ کر تقریباً 41سال اور دو ماہ میر منشی بن کر لکھتا رہا جسے میں نے میر منشی کی حیثت میں لکھا اور اب بھی
لکھا رہا ہوں
س: آپ کی پہلی تحریر کس عنوان سے تھی اور کون سی تحریر اب تک طویل تحریر بن کر شائع ہورہی ہے؟
ج: میری زیادہ تر تحریریں ہفتہ وار میگزین یا اخبار میں شائع ہوتی ہیں اور پہلی تحریر حیدرآباد شہر کے عنوان سے تھی اس کے علاوہ
2012 سے عبرت میگزین جو ہرپندرہ روز میں مسلسل شائع ہوتی ہیں میری تاریخ کے عنوان سے شائع ہوری ہے
س: آپ کی بے شمار تحریریں زیادہ تر تاریخ کے عنوان سے کیوں ہوتی ہے؟
ج: پہلی بات یہ ہے کہ جتنا بھی جدید دور آجائے یہ تاریخی مقامات اور مقبرے وغیرہ یہ ہمارے قومی آثاثے ہیں
یہ نئی نوجوان نسل اگر اپنی تاریخی مقامات پر نظر ڈالیں تو گھوم جائیں گے کیونکہ یہ اتنے دلچسپ اور منفرد مقامات ہیں اس
کی خوبیاں اپنی طرف راغب کرے گی اور اسے پڑھنے میں اور دلچسپی میں اور اضافہ ہوگا اور یہ مقامات اپنی ایک تاریخی
حیثت رکھتے ہیں،
س: آپ کی پہلی کتاب کونسی تھی اور اب تک کتنی تحریریں کتابوں کے شکل میں آچکی ہے؟
ج: میری پہلی کتاب حیدرآباد شہر تاریخ کے آئینے میں ،اس عنوان سے شائع ہوئی جو لوگوں میں بہت مقبول ہوئی اور اسکے
علاوہ دوسری کتاب جو تقریباً مکمل ہوچکی ہے جس کا عنوان سندہ اقتدار اور مفاد ، اس کی کچھاقساط کراچی سے ہونے والی
ماہموار رسالے Toward newsمیں شائع کی جا چکی ہیں اور ابھی جلد ہی دوسری کتاب قارئین کو پڑھنے کو ملے گی،
س: تاریخی مقامات میں سے وہ کون سے مقامات ہیں جن کا تذکرہ آپکی تحریروں میں زیادہ کیا گیا ہیں؟
ج: تاریخی مقامات میں سے چند ایسے مقامات ہے جوکہ میں نے اپنی تحریروں میں زیادہ لکھا ہے قسط وار کی شکل میں
کلہوڑہ حکمرانوں کا مقبرا ،پکا قعلہ ،کچہ قعلہ ،تالپور حکمرانوں کے مقبرے ،درویشوں کے آرام گاہیں ،قدیم مسجدیں
اور قدیم قبرستان اب یہ اپنی اصلی حالت میں نہیں رہی ہیں میری تحریروں میں نمایاں رہی ،
.. .... ..... ....... ..... .... ..... ..... ..... .... ....
M.A Previousکلاس2K17/MC/62 عادل انصاری رول نمبر 62
انڑویو محمد وارث علی عباسی
تعارف:
ابتدائی تعلیم حیدرآباد کے نور محمد ہائی اسکول میں حاصل کی سکینڈری تعلیم سچل کالج سے حاصل کی حیدرآباد کے تاریخ کے خوالے
سے خاص نظر ہے اور خاص حیدرآباد کی تاریخ میں مختلف تحریریاں لکھیں
س مصنف بننے کا شوق کب ہوا اور اس کا آغاز کب ہوا
ج: لکھنے کا شوق بچپن ہی سے تھا جب سے ہوش سنبھالا ہے جب سے لکھنے کا آغاز کردیا تھا اور ساری زندگی لکھ رہا ہوں سرکاری نوکری میں رہے کر تقریبا ¾ 41سال اور دو ماہ میر منشی بن کر لکھتا رہا جسے میں میر منشی کی حیثت میں لکھا اور اب بھی لکھا رہا ہوں۔
س آپ کی پہلی تحریر کس عنوان سے تھی اور کون سی تحریر اب تک طویل تحریر بن کر شائع ہورہی ہے
ج: میری زیادہ تر تحریریں ہفتہ وار میگزین یا اخبار میں شائع ہوتی ہے اور پہلی تحریر حیدرآباد شہر کے عنوان سے تھی اس کے علاوہ 2012سے عبرت میگزین جو ہر پندروہ روز مسلسل شائع ہوتی ہیں اس میں میری تاریخ کے عنوان سے شائع ہوری ہے
س آپ کی بے شمار تحریریں زیادہ تر تاریخ کے عنوان سے کیوں ہوتی ہے
ج: پہلی بات یہ ہے کہ جتنا بھی جدید دور آجائے یہ تاریخی مقامات اور مقبرے وغیرہ یہ ہمارے قومی آثاثے ہیں اگر خوصاً یہ نئی نوجوان نسل اگر اپنی تاریخی مقامات پر نظر ڈالے تو گھوم ہوجائے گے کیونکہ یہ اتنی دلچسپ اور منفرد مقامات ہیں اسکی خوبیاں اپنی طرف راغب کرے گی اور اسے پڑھنے میں اور دلچسپی میں اور اضافہ ہوگا اور یہ مقامات اپنی ایک تاریخی حیثت رکھتی ہے
س: آپ پہلی کتاب کونسی تھی اور اب تک کتنی تحریریں کتابوں کے شکل میں آچکی ہے
ج: میری پہلی کتاب حیدرآباد شہر تاریخ کے آئینے میں ،اس عنوان سے شائع ہوئی جو لوگوں میں بہت مقبول ہوئی اور اسکے علاوہ دوسری کتاب جو تقریباً مکمل ہوچکی ہے جس کا عنوان سندہ اقتدار اور مفاد ، اس کی کچھ قسط کراچی سے ہونے والی ماہموار رسالے Toward newsمیں شائع کی جا چکی ہے اور ابھی جلد ہی دوسری کتاب قارئین کو پڑھنے کو ملے گا
س تاریخی مقامات میں سے وہ کون سے مقامات ہیں جن کا تذکرہ آپکی تحریروں میں زیادہ کیا گیا ہیں
ج: تاریخ مقامات میں سے چند ایسے مقامات ہے جوکہ میں نے اپنی تحریروں میں زیادہ لکھا ہے وہ قسط وار کی شکل میں کلہوڑہ حکمرانوں کا مقبرا ،پکا قعلہ ،کچہ قعلہ ،تالپور حکمرانوں کے مقبرے ،درویشوں کے آرام گاہیں ،قدیم مسجدیں اور قدیم قبرستان اب یہ اپنی اصلی حالت میں نہیں رہی ہے یہ میری تحریروں میں نمایاں رہی ہیں
س حیدرآباد کی تاریخی مقامات کے علاوہ اسکی خوبصورتی کتنی برقرار ہیں
ج: حیدرآباد شہر کا خوبصورت ماضی اب ہم سے گھوم ہوچکا ہے جو شاید اب لوٹ کر واپس نہیں ملے گا اس شہر کی خوصیت میں سے اسکی کی بناوٹ ہیں یہ شہر ٹکیریوں پر آباد ہے ایک شاہ مکئی والی ٹکری دوسری پکے قعلے والی ٹکری پھر اس شہر کی چڑھائی پر نظر کیجئے جو کسطرح توجہ طلب ہے اس شہر کیثر لاتعداد درخت جو اب موجود نہیں رہے اس شہر کے اونچے اونچے درخت بڑے پیڑ والے
درخت چھوٹے پیڑ والے درخت اور ان میں نیم کے درخت املی بیر جنگل جیلبی اور جاسمین کے پھول اور ان میں کئی طرح پھول اور ان میں کئی طرح کے قسمیں اور دوسرے قدرتی نظارے جو اب ختم ہوکر رہیں گئیں ہیں ۔
س آپ خیال میں کتابیں پڑھنے کے رحجانات میں کمی ہوئی ہے یا اضافہ ہوا ہے
ج: کتابیں پڑھنے کے رحجانات میں کمی ہوئی ہے اور ایسا پڑھنے والوں کی کثیر تعداد کمی ہوئی ہے جنہیں پڑھنے کا شوق ہے وہ پڑہتے ہیں پر البتہ اس کے کمی کے جو اسباب ہے وہ الیکڑانک میڈیا اور انڑنیٹ ہے اس نے کتابیں پڑھنے کے زوق کو اپنی جانب منتقل کرلیاہے
ٓس انڑنیٹ کے اب مواد مل جاتے ہیں کیا ہی وجہ ہے کتابوں سے دوری اسباب
ج: انڑنیٹ خود کچھ تخلق نہیں کرتا نیٹ تخلیق کاروں کے مواد کو اپنے اندر محفوظ رکھتا ہے جتنی محبت آپ لوگ اس رکھتے ہیں اتنی ہی اس میں رکھے گئے مواد جن کی تخلیق سے یہ مواد بنا ہے اتنی محبت ان تخلق کار سے رکھے کیونکہ اانڑنیٹ خود کوئی تخلیق کار نہیں ہے
س آپ کے لکھنے کی صلاحیت کو پروان چڑھانے میں کن عوامل نے نمایاں کردار ادا کیا
ج : میں پہلے بتا چکا ہوں لکھنے کا شوق مجھے بچپن سے ہے اور صلاحیت کو پروان چڑھانے کی جہاں تک بات ہے تو سچی بات یہ ہے کہ شوق بنیادی حیثت رکھتا ہے کسی بھی کام میں اور جب شوق ہوں تو اللہ تعالی اس شوق کی تکمیل فرمادیتا ہے
س اپنے ہم عصر قلمکاروں کے متعلق بتائے
ج: ہم عصر قلمکاروں کے متعلق یہی ہے کہ سب اچھا لکھتے ہیں اور جو چھپ رہے ہیں وہ بہت اچھا لکھتے ہیں ورنہ کیوں چھپیں
Comments
Post a Comment