Junaid Birmani Profile

Photo is required.


پیس پروفائل 

جنید احمد برمانی 
رول نمبر : 2K15-MC-111 
بی ایس پارٹ : فور 
نو جوان کاروبا ری شخصیت مراد علی 
نوجوا ن پڑھ لکھ کر اپنی تعلیم مکمل کر کے سوچتے ہیں کہ اب وقت آیا ہے کہ سرکاری عہد ے کے آفسر بنا کر یا سرکاری ملازمت حاصل کرکے اپنی زندگی سنوارے لیکن ہزاروں میں سے چند خوش قسمت ہوتے ہیں جو اپنے منصب میں کامیا ب ہوتے ہیں لیکن بڑی تعداد میں پڑھے لکھے نوجوان اپنے خوابوں میں پہ پورا نہیں اتر پاتے ان میں سے ایک مراد علی بھی ہے ۔
ضلع دادو کے نواہی گاؤ ں خدا آباد سے تعلق رکھنے والے مراد علی جو کہ اب کوٹری کے علاقے ملک ٹاؤ ن میں رہائش پذیر ہیں ۔ مراد علی نے اپنی ابتدائی تعلیم پبلک اسکول حیدرآباد سے حاصل کی جب کہ اعلیٰ تعلیم کیلئے سند ھ یونیورسٹی کے شعبہ بی -کام میں گریجوئیٹ کی ڈگری حاصل کی پھر 2013 میں شعبہ بی - کام میں مسٹر کی تعلیم مکمل کی ۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد ہر ایک پڑھے لکھے نوجوان کی خواہش ہوتی ہے کہ اس جلد از جلد کوئی اچھی سرکاری نوکری مل جائے ایسے ہی خواب مر اد علی کے بعد تھے وہ اپنے ان خوابوں کو پورا کرنے کی کوشش میں ہر طرح کی جدوجہد میں مصروف رہتا تھا ۔ مر اد علی نے بتایا کہ ہر اخبارات میں آنے والی نوکریوں کے اشتہارات دیکھ کر ان میں عمل کرنے میں پہل کر تاتھا ۔ مگر ہمارے ملک میں سفارش کا اصول بن چکا ہے اس وجہ سے مر اد علی کو بھی ما یو سی کے سا تھ نا کامی کا منہ دیکھنا پڑتا تھا ۔
مراد علی نے مایوسی سے بتا یا کہ ایک سال بے روزگار رہتے ہوئے خود کو اس زمین پر بوجھ سے محسو س کر رہا تھا آخر کار مراد علی نے نجی نوکریوں کے سا تھ سا تھ سرکار ی نوکریوں کا بھی سوچنا چھوڑ دیا تھا ۔پھربھلا ایسی ڈگریوں کو کیا فائدہ جس سے انسان بے روزگاری کے سا تھ سا تھ خود کو قصور وار سمجھنا شروع کر دیے ۔ 
مراد نے اپنی زند گی کے ان واقعا ت کو بتا تے ہوئے بتایا کہ انسا ن بے روزگار رہنے سے بہتر ہے اپنا پیسہ خرچ کرکے اپنا ہی کاروبار کھو ل لے ۔ مراد علی نے بھی ایسا ہی کچھ کرکے گاڑیوں کے پارٹس کی ایک دوکان کھول کر اپنی زندگی کی گاڑی چلانا شروع کردی ۔مراد علی کی طرح ہی بہت سے نوجوان تھک ہار کے دوسری چیزوں کو ترجیع دینا شروع کردیتے ہیں ، ایسی مثالے ہمارے معاشرے میں بہت سی پائی جاتی ہیں یہ تو ہوئی بی - کام کی ڈگری ناکام مگر ہمارے معاشر ے میں ڈاکٹراور انجینئر ز بغیر پیسوں کے (Unpaid )ملاز مت کرنے رپر مجبور ہو جاتے ہیں۔ 
مراد علی نے ہماری گفتگو کے آخر میں بتا یا کہ میں ملازمت کے چکروں میں پچھلے چارسالوں سے مختلف دفاتر ، نجی اسکولوں اور چھوٹے بڑے ٹیوشن سینٹرز کے چکروں میں اپنا وقت ضائع کر تا رہتا تھا اس سے بہتر تھاکہ میں اس وقت بھی اپنا کاروبار کا آغا ز کر لیتا تو آج اس کاروبار کو بہت وسیع اور بڑھا لیتا ۔ میر ی خواہش ہے کہ میں اس کاروبار کے ہی ذریعے اپنے گھر کو چلاتا رہوں اور گھروالوں کی ضروریات کو پورا کروں ۔ 
انشا ء اللہ 

Comments

Popular posts from this blog

Yousuf Laghari Profile by Nimra

Aqeel Ahmed Soomro

TWO OLD GOVERNMENT SCHOOLS OF HYDERABAD CITY