حیدرآباد کے قبرستانوں کا جا ئزہ


حیدرآباد کے قبرستانوں کا جا ئزہ


Waqas Rajput, Nadir, Shahana, Sanjha did not file 

نمرہ عامر 2k15/mc/103



قبرستانوں کی تاریخ اور موجودہ حالات



وقاس راجپوت 2k15/mc/61 
نادر 03 2k15/mc/ 
شہا نہ 2k15/mc/80 
سنجا 2k15/mc/77 



تٰعارف 
نمرہ عامر علی 




قبرستانوں کی تاریخ اور موجودہ حالات



اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ہر جاندار شے کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے ، اور ہم میں سے ہر ایک کو ہی ایک نہ ایک دن شہر خموشاں کا رخ کرنا ہے بس فر ق یہ ہے کہ یہ سفر دو پیروں کے بجائے لوگوں کے کندھے پر چڑھ کر ہوگا ۔ مگر پاکستان کے قبرستان کی حالت وزار سب کے سامنے ہیں چند ایک کو چھوڑ کر یہ مقامات کسی کھڈر یا جنگل کا منظر پیش
کرتے ہیں۔
ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ اکثر افراد قبرستان جانے کے خیال سے ہی خوفزدہ رہتے ہیں ، تاہم دنیا میں ایسی آرام گاہوں کی بھی کمی نہیں جن کی خوبصورتی دیکھنے والوں کو مسحور کر کے رکھ دیتی ہے بلکہ وہ یقناً وہ متعددافرادکی آخری منزل ہوسکتی ہے مگر بیشتر سیاح بھی ان کو دیکھنے کے لیے سفر کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔



۱۷۰۰ عیسوی میں تالپوروں اور کلہوڑوں کی جنگ ہوئی جس میں تب میر کلہوڑو کے وزیر تھے ۔ میر بنیادی طور پر بلوچ ذات کے تھے کلہوڑوں نے جب حکومت پر قبضہ کیا اس وقت سندھ کی آزادی کی تحریک چلی اس میں میر سب سے آگے تھے۔ کلہوڑوں نے میروں کو بڑی بڑی جاگیریں دیں آہستہ آستہ کلہوڑوں کا آپس میں تنازع شروع ہو گیا ۔ غلام شاہ کلہوڑو جب دنیا سے رخصت ہو گئے تو ان کے بھائی غلام نبی کلہوڑو، عبدالنبی کلہوڑو نے غلام شاہ کلہوڑو کے بیٹے کو قید کیا اور پھر اسے ماردیا کچھ میروں کی قبریں زبیدہ کالج میں ہیں۔
سندھ پر میر تالپور خاندان کی حکمرانی کا آغاز تب ہوا جب انہوں نے ہالانی کی جنگ میں کلہوڑو کی فوج کو شکست دی ،یہ تنازعہ باقاعدہ طور پر تب حل ہوا جب1784میں مغل بادشاہ اکبر شاہ دوئم نے فرمان جاری کرکے میرفتح علی خان تالپور کو سندھ کانیا نواب مقرر کر لیکن ان کی حکومت ذیادہ عرصے قائم نہ رہ سکی1843میر برطانوی فوج کے جنرل چالس جمیز نیپیئر کے ہاتھوں میانی کی جنگ میں شکست کے ساتھ ہی میر تالپور کی حکومت کاسورج غروب ہوگیا۔مزارات کی طرز تعمیر کی بات کریں تو یہ ان دنوں مین سندھ رائج طور تعمیر کی عکاسی کرتے ہیں۔ مزارات کارنگ ان کی ساخت اور باقی سب کچھ فن تعمیر کاایک نادر نمونہ ہے دیواروں اور قبروں پر قرآنی آیات کی خطاطی کی گئی ہے جوکہ بہت ہی دلکش ہے مزاروں کی نزائش خدائش اور وہاں بنائے گئے نقش و نگار دیکھ کر نظر وہیں جمی کی جمی رہ جاتی ہے ۔



یونٹ نمبر ۸ میں اکبری قبرستان ہے جہاں ماضی میں ایک کنواں تھاAPSکے ہیڈ شرافت نے یہ جگہ گورنمنٹ سے لی پھر اس کے بعد یہاں ایک فلاحی ادارہ کھولا لیکن وہ ادارہ صرف ایک سال چلا پھر انہوں نے وہ جگہ بیچ دی لیکن اس کے ساتھ ساتھ قبراستان والے ایدیا میں انہوں نے نو قبریں خالی چھوڑی ہوئی ہیں اور اندر سے رنگ روغن کرواکر اس جگہ کو چھوڑاہو ہے وہاں پر جو لوگ رہ رہے ہیں وہ وہاں پرنشہ کرتے ہیں۔
ٹنڈو آغامیں قبرستان جوڑیل شاہ کا مقام جو کہ آفندی ٹاؤن کے قریب قلعے کے نیچے واقعہ ہے یہاں ٹنڈو آگا اسماعیل شاہ کی جاگیرتھی اس کے قریب ہی ٹنڈو میر محمود ہے جو 2500سال پرانا ہے اس میں بھی میروں اور مرزا علماء کی قبریں موجو د ہیں۔
اولڈ قبرستان ٹنڈو آغا میں اس وقت آباد ہورہی ہے اور قبرستان کا نام و نشان اب ختم ہوتا جارہا ہے ہندوؤں کا قبرستان مکمل سیوریج کے پانی میں منتقل ہے اس سمت کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں پڑھی ہوئی آبادی کو دیکھتے ہوئے شہریوں نے قبرستان پر قبروں کو مٹا کہ مکانات آباد کردیئے ہیں جس کی مثال میروں کے قبرستان سے ملتی ہے ارد گرد کے لوگوں نے قبرستان کو مٹا کر آبادہو گئے ہیں اس کے ساتھ ساتھ۱۷۰۰ ہجری کا اولڈ قبرستان جو کے شہر حیدرآباد کے گنجان آبادی والے علاقے ٹنڈو آغا سے پہچانا جاتا ہے جو کہ شہر حیدرآباد کے گنجان آبادی والے علاقے ٹنڈو آغا سے پہچانا جاتا ہے جو آج مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے۔ قبرستان جو ہندو برداری کے ہیں جن میں ٹنڈو یوسف میں ہے مکمل طور پر سیوریج کے پانی میں ڈوبا ہوا ہے جب کے دوسری برادری کا قبرستان بدین اسٹاپ پر چار دیواری کے اندر بند کر دیا گیا ہے۔ جب کہ اس علاقے میں کافی ایسی قبریں ہیں جو آج بھی مکانا ت کے نیچے چھپی ہیں۔لطیف آباد کے دونوں قبرستانوں پر پٹھانوں کا قبضہ ہے وہ ہر قبر کے 10,000لیتے ہیں۔ قبرستان کے لیے جو پانی دیا ہوا ہے وہ اس پانے سے رکشہ دھوتے ہیں۔ اور صرف اس قبر پر پودے اگاتے ہیں جس کے وارث انہیں پیسے دیتے ہیں اور جس کے وارث انہیں پیسے نہیں دیتا تو اس قبر سے پودے ہٹا دیتے ہیں ۔ حیدرآباد کے تقریباً تمام قبرستانوں میں قبر کے اورپر قبر بنادی ہے ۔
موجودہ وقت میں میروں کا قبرستان زبوں حالت میں تھا دن میں لڑکے وہاں کرکٹ کھیلتے اور رات میں نشے کے عادی اور بے گھر افراد وہاں نشہ اور آرام کرنے آتے ہیں۔ اس تمام عرصے میں مقبروں کو شدید نقصان پہنچایا لیکن جب سے میر تالپور خاندان نے رکھوالا تعینات کیاہے تب سے یہ جگہ لوگوں کے لئے حرشام4بجے تک کھلی ہوتی ہے۔ اس سے مزید نقصان کو روکنے میں کافی حد تک مددملی ہے ۔
مزارات پر اکثر تالا لگا ہوتا ہے تاکہ آوارہ جانور یا لوگ اند رجا کر نقصان نہ پہنچا سکیں لیکن یہ دیکھ کر بہت ہی افسوس ہوتا ہے کہ مزارات کا فی حد تک خراب حالت میں ہے یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ کس وقت دیواریں منہدم ہوجائیں ۔
مزارات لمبے عرصے تک وقت اور موسمون کی سختیاں جھیل رہے ہیں انہوں نے آس پاس کے علاقے کی بے پناہ ترقی دیکھی ہے ایک وقت تھا جب یہ پورا علاقہ ایک خالی میدان تھا اوریہ مزارات بلند قامت ہونے سے ہی نظر آتے تھے لیکن اک اونچی عمارتوں کے درمیان یہ مزارات کہیں پوشدہ سے ہو گئے ہیں۔

Comments

Popular posts from this blog

Yousuf Laghari Profile by Nimra

Aqeel Ahmed Soomro

TWO OLD GOVERNMENT SCHOOLS OF HYDERABAD CITY