ماریہ عائشہ : انٹرویو تاج محمد لاشاری Maria Aesha

ماریہ عائشہ بی ایس پارٹ 3- انٹرویو
تاج محمد لاشاری

سندھ دھرتی ماضی سے علم و ادب اور تحقیق میں مضبو ط اور شاہکار رہی ہے ، یہا ں کے لوگ ہمیشہ سے آگے رہتے آ رہے ہیں ، سندھ کی بڑے ادیب عبدالوحید آریسر نے کئی لکھا ہے کہ امام ابو حنیفہ بھی سندھی تھے ،اس کے علاوہ اس صوبے میں بہت سی اعلیٰ شخصیات موجود ہیں ۔ علام آئی آئی کا تعلق بھی اس سر زمین سے تھا ، سندھ یونیورسٹی جو کہ علا مہ آئی آئی قاضی کے نام سے منسوب ہے ۔ سندھ یونیورسٹی 1947میں قائم ہوئی تاہم1972تک اس یونیورسٹی کو مختلف مراحل سے گذرنا پڑ ا۔ اس ادارے نے ماضی میں جن علمی ادبی شخصیات کو جنم دیا ان کے نظریے مضبوط ہوتے ہیں ان ناموں میں سابق چیف منسٹر آف سندھ قائم علی شاہ ، سابق وزیر اعظم پاکستان راجہ پرویز اشرف اور بہت سے اعلیٰ شخصیات موجود ہیں ۔ اس جا معہ کی خوش نصیبی ایک یہ بھی ہے کہ مختلف علاقوں میں اس کے کیمپس موجود ہیں ، جس میں ماضی میں شاہ عبدالطیف یونیورسٹی اس جامعہ کا حصہ تھی۔شاہ عبدالطیف یونیورسٹی 70ء کے زمانے میں شاہ عبدالطیف یونیورسٹی کو اپنی الگ پہچان ملی جو کہ اس وقت سندھ کے کچھ اضلاع پر مشتمل ہے ۔ شاہ عبدالطیف جہاں تعلیم و تحقیق کی میدان میں کام کر رہی ہے اس یونیورسٹی میں مختلف شعبے بھی موجود ہیں جہاں پروفیسر ، اساتذہ اپنی ذمہ داریا ں سنبھالنے میں مصروف ہیں۔ میری معلومات کے مطابق اس ادارے میں اس وقت
26شعباجات ہیں جبکہ 1000کی تعداد میں لیکچرار اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں ۔
شاہ عبدالطیف کے شعبے میڈیا اسٹڈیز کے چیئر مین پروفیسر ڈاکٹر تاج محمد لاشاری کے ساتھ کی گئی گفتگو
سوال ۱۔ آپ اپنا مختصر تعارف کروائیں ؟
جواب ۔ میرا نام تاج محمد لاشاری ہے ، میرا ابائی گاؤں خیرپور ضلع ہے ، اپنے ابائی گاؤ ں سے تعلیم کے سلسلے کا آغاز کیا
سوال ۲۔ میڈیا کیا ہے ؟
جواب ۔ ذرائع ابلاغ یعنی میڈیا کی اہمیت سے انکار کسی طور نہیں ، یہ کہا جائے کہ پیغا مات اور خبر کوہم تک پہنچانے میں یہ اہم کردار ادا کرر ہا ہے تو غلط نہیں ہوگا ۔ ہم کسی بھی ملک شہر گاؤں قصبے کی خبر سے بے خبر نہیں رہ سکتے ، حالاتِ موسم یا حالات دنیا ، ٹیکنالوجی سے متعلق ہو یا حالات حاضرہ ، کھیلوں کا میدان ہو یا سیاسی میدان ہر خبر فوراً سے پہلے نشر کردی جاتی ہے ۔ ٹیلی وژن آن کریں تو چینل پر تازہ ترین خبریں سننے کو ملیں گی ، جہاں تازہ تریں صورتحال سے لوگوں کو باخبر کیا جا رہا ہوتا ہے کوئی کھیلوں سے خبر کا منتظر ہوتا ہے تو کوئی معلوماتی یا تفریحی خبروں کا منتظر ہوتا ہے۔ عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ میڈیا ریاست کا اہم ستون ہے جس طرح کہ عدلیہ ہوتا ہے ۔
سولا نمبر ۳۔ آپ کے اس ادارے میں میڈیا کا شعبہ کب شروع ہوا ؟
جوا ب۔ شاہ عبدالطیف یونیورسٹی میں2005میں میڈیا کے مطالعے کو متعارف کروایا گیا تھا ۔2005میں اس شعبہ کو بین الاقوامی اداروں کے ساتھ شروع کر دیا گیا تھا جبکہ2008میں ماس کمیونکیشن میڈیا اسٹڈیز کے نام سے اسے اپنی الگ حیثیت ملی ۔ ہمارے ملک میں اس کی بہت مانگ ہے ہر جگہ ہر گاؤں میں اس کا ذکر سنائی دیتا ہے ، مثلاً آپ نے دیکھا ہوگا کہ جہاں 4سے10لوگ جمع ہوجائے تو میڈیا کی بات کرتے نظر آتے ہیں ، جب یہ شعبہ شروع کیا تو طلباء و طالبات کی تعداد 10تھی اب جا کر 150پر آ پہنچی ہے ۔ ہر جماعت میں 10سے15طلبات موجود ہیں ، جبکہ لوگوں میں شعور تیزی کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے ، میرا تو یہ کہنا ہے کہ آج کل کی نئی نسل میڈیا کو زیادہ ترجیع دے رہی ہے ۔
سوا نمبر 4۔ آپ اپنے شعبے کے بارے میں مزید کچھ بتائیں ؟
جواب ۔ ہم اپنے طلبا ء و طلبات کو پیمرہ بھی بھیجتے ہیں جہاں وہ تھیسز کا کام کرتے ہیں جو کام وہ یہاں نہیں سیکھ پاتے وہ وہاں سیکھ لیتے ہیں ۔ہمارے ادارے کیلئے شاہ عبدالطیف یونیورسٹی کی جانب سے ریڈیو چینل کی منظور بھی ہوچکی ہے کچھ ماہ میں ہمارے اس ادارے کے طلباء و طلبات اور اساتذہ مل کر ریڈیو کے مقرر چینل میں فرائض انجام دیں گے ، ہمارے شعبے میں میڈیا اسٹڈیز کے طلباء و طلبات میگزین بھی شایع کرتے ہیں اور ہفتہ وار اخبار بھی شایع کرتے ہیں جس کا ساراکام طلبہ خود سر انجام دیتے ہیں ۔
سوال نمبر 5۔ آپ اپنے اس کام سے اور اس کرسی سے کس حد تک مطمئن ہیں ؟
جواب ۔ شاہ عبدالطیف یونیورسٹی سندھ کے 8اضلاع علم کا مینار ہیںیہاں اذہاں کی تربیت ہوتی ہے یہ ادارہ تعلیم و تحقیق کے میدان میں سرگرم ہے ہماری خوش نصیبی یہ ہے کہ یہ جامع سندھ کا حصہ تھا ، جہاں تک مطمئن کی بات ہے تو میں بے حد مطمئن ہوں ، یہ تو میرے لئے فخر کی بات ہے کہ میں وطن عزیز کے چراغوں ک و علم کی روشنی سے روشناس کرنے میں مصروف عمل ہے اور یہ میری خوش نصیبی ہے کہ یہ جامعہ ماضی میں مادرِ علم یونیورسٹی کا حصہ ، جس کو سندھ کی یونیورسٹی کی ماں کہتے ہیں اور میں بھی اس کا حصہ ہوں ، اس سے زیادہ فخر کی بات میرے لئے کوئی اور نہیں ہوسکتی ۔
سوال نمبر 6۔ آپ ماس کمیونکشن کے طلباء و طلبات کیلئے کیا پیغا م دینا چاہیں گے ؟
جوا ب۔ میرا تو یہ کہنا ہوگا کہ ہمارے آج کے طلباء کل کے کامیاب صحافی ہیں ، جو کہ صحافت میں آکر اپنی سرگرمیاں سر
انجام دیں گے اور میں سمجھتا ہوں کہ قلم کے ذریعے سماج میں تبدیلی آئے گی ۔ انہوں نے کہا کہ کاپی کلچر کا باب بھی بند ہوسکتا ہے ، انہوں نے کہا کہ مظلوم عوام کیلئے حق کی آواز اٹھانا بھی صحافی کی ذمہ داری ہے ، آج کل کے نوجوان غیر ضروری کاموں میں وقت برباد کر رہے ہیں تعلیم کے ذریعے دنیا پر حکمرانی کی جاسکتی ہے ، اس کیلئے ہمیں اور ہمارے آنے والے نئے صحافیوں کا اپنے قلم کشی میں زیادہ سے زیادہ مہارت دکھانی ہوگی ۔

Comments

Popular posts from this blog

Yousuf Laghari Profile by Nimra

Aqeel Ahmed Soomro

TWO OLD GOVERNMENT SCHOOLS OF HYDERABAD CITY